۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 402479
21 ستمبر 2024 - 09:00
ماه ربیع‌الاول

حوزہ/ایک سال میں بارہ مہینے ان عدۃ الشھور عند الله اثنا عشر شھرا فی کتاب الله ۔۔۔ (کتاب خدا میں مہینوں کی تعداد الله کے نزدیک یقینا بارہ مہینے ہے) اور تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں اور قدرتی سر گرمیوں کے سبب مختلف موسم وجود میں آتے ہیں اور دنیا کبھی سردی و گرمی تو کبھی دوسرے موسم سے روبرو ہوتی ہے۔

تحریر: مولانا سید حسین عباس عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی| ایک سال میں بارہ مہینے ان عدۃ الشھور عند الله اثنا عشر شھرا فی کتاب الله ۔۔۔ (کتاب خدا میں مہینوں کی تعداد الله کے نزدیک یقینا بارہ مہینے ہے) {١} اور تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں اور قدرتی سر گرمیوں کے سبب مختلف موسم وجود میں آتے ہیں اور دنیا کبھی سردی و گرمی تو کبھی دوسرے موسم سے روبرو ہوتی ہے۔

یوں تو ہر موسم کسی نہ کسی لحاظ سے ہمارے لئے فائدہ مند ہوتا ہے اور ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے متاثر ہوئے بغیر رہ بھی نہیں سکتے لیکن موسم بہار کی اپنی ایک الگ ہی بات ہے، اسے ان تمام موسموں کی بادشاہت کا مقام حاصل ہے کیونکہ انسان و دیگر مخلوقات جتنا اس موسم سے خوشحال و مسرور ہوتی ہے شاید ہی کسی دوسرے موسم سے ہوتی ہو اور اس کی اہمیت اس وقت اور زیادہ سمجھ میں آتی ہے جب سایہ دار درختوں کے پتے سوکھ کر جھڑ جاتے ہیں، جب شاخیں بے رونق نظر آتی ہے، جب ہرے بھرے باغات اپنی رعنائی کھو دیتے ہیں، جب مسکراتے پھول مرجھا جاتے ہیں، جب ننھے منے پودوں پر اداسی چھا جاتی ہے، جب آنکھوں کو روشنی بخشنے والی ہری بھری گھاس سوکھ جاتی ہے، جب ہر گلشن غم کا منظر پیش کرنے لگتا ہے، غرض کہ جب خزاں اپنے پورے وجود سے اپنی انا پر اترانے لگتی ہے تو پھر دل شدت سے ایک خشگوار اور خوبصورت تبدیلی، نظروں میں دلنشین و دلفریب نظارے، حسین و سہانہ ماحول کہ جس میں باغات کا ذرہ ذرہ خوش، سر سبز و شاداب درخت، آنکھوں کو تازگی بخشنے والے رنگ برنگی پھول کا کھلنا، مست پرندے اور ہر طرف ان کی چہچہاہٹ کا شور، پر مسرت و پر معطر فضا، درختوں کی ڈالیوں کا جھومنا، بلبلوں کا رس بھرے گیت گانا، شبنم کے قطروں پر موتیوں کا دھوکا ہونا اور لطف اندوز لمحوں کا انتظار کرتا ہے اور یہ فضا سوائے موسم بہار کے اسے کوئی اور فراہم نہیں کرتا۔

عربی زبان میں ربیع کے معنی بہار کے ہوتے ہیں اور موسم بہار دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے پہلا اس کا ابتدائی حصہ، جس میں کلیاں اور پُھول کھلتے ہیں، اور دوسرا وہ حصہ جب پھل پک جاتے ہیں، اسلامی سال کے تیسرے مہینے کو کیوں نہ ربیع الاوّل کہا جائے، زمین و آسمان شاہد ہیں کہ جب تاریخ بشریت پر خزاں حملہ آور ہوئی اور انسانیت عجیب و غریب مناظر پیش کرنے لگی، جب تہذیب کا دم گھٹنے لگا، جب زندگی وحشیانہ اور درندہ صفت نظر آئی، جب بدمستی و عیاشی انتہائی درجہ تک پہنچ گئی، جب ہر سمت خوف و ڈر کا ماحول پیدا ہونے لگا، جب باپ اپنے ہی ہاتھوں اپنی بچیوں کی زندہ دفنانے لگا، جب گناہ پر فخر ہونے لگا، جب چھوٹی چھوٹی باتوں پر سالوں خوں ریزی ہونے لگی، جب قدم قدم پر انسانیت کا وقار پارہ پارہ ہونے لگا، جب انسان پر انسان پر ظلم کرنے لگا، جب تہذیب کا مذاق اڑایا جانے لگا، غرض کہ ہر طرف تاریکی کی حکومت اور جہالت کی ایسی خزاں چھائی ہوئی تھی کہ جس نے ہر کسی کو اپنا غلام بنا لیا تھا کہ جس سے بچنے اور جس کی آفات سے انسانیت کو رہتی دنیا تک محفوظ رکھنے کے لئے وہ کسی ایسے محکم و مستحسن کردار کی زیارت کا مشتاق تھا کہ جو سراپا صادق و امین، بحر علم و عمل، مخاطب و انک لعلی خلق عظیم (اور بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں.) {۲} نور مجسم، مصداق مکارم اخلاق، مرکز شفقت و محبت، کوہ عظمت و رفعت، ناشر و محافظ شریعت، صاحب مقام ولایت، پیکر اوصاف حمیدہ، قول و فعل میں یکساں، مصدر بخشش و عطا، محبوب کردگار ہو، مختصر یہ کہ نہ صرف رفتار و گفتار بلکہ ہر اعتبار سے بہار دائمی کا بے نظیر نمونہ ہو اور پھر یہ انتظار شاید اور طولانی ہوتا مگر زہے نصیب گلشن انسانیت کے کہ جو ہی اسے سن ایک عام الفیل اور سن تراسی ہجری کی اسی مہینے کی سترہ تاریخ کو ان صفات کے حامل شخصیات کا شرف دیدار ہوا تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا، ہر کلی کھل اٹھی اور ہر پھول مسکرا اٹھا اور ایسی بہار آئی کہ پھر کبھی خزاں کی جرأت نہ ہوئی کہ اس کی طرف پلٹ کر دیکھے اور یہ مہینہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ربیع الاول کہلایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

١ ۔ توبہ/۳۶

۲ ۔ القلم/۴

تبصرہ ارسال

You are replying to: .